مصنفہ:

گائنا کالوجسٹ

ڈاکٹر شگفتہ نقوی
شکوہ ظلمت شب سے تو بہتر تھا یہی
اپنےحصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

فراز

مشیر خاص :

پرنسپل آرمی کالج

محترمہ فاطمہ نقوی
نہ معرکہ نہ کشمکش نہ ہار جیت ہو
وہ زندگی بھی کیا ہے جو برائے نام ہو


خوش آمدید

کہانی کیسے بنتی ہے؟ کیسا عجیب عنوان ہے بلکہ دیکھا جائے تو یہ خود ایک سوال ہے۔ جب سے دنیا وجود میں آئی ہے کروڑوں لوگ آئے اور زیر زمین چلے گئے۔ ہر انسان کے ساتھ ایک کہانی وجود میں آئی۔ کچھ ہمیشہ کے لئے امر ہو گئیں، کچھ تاریخ نے محفوظ کر لیں۔ بہت سی ہم بھول گئے۔ ہم خود ایک کہانی ہیں۔۔۔ ہر گزرنے والا دن اس کہانی کو تحریر کرتا ہے۔ پھر بھی کتنی عجیب بات ہے کہ ہر شخص جب بچہ ہوتا ہے، ہوش سنبھالنےپر شعور سے پہلے وہ کہانی سننے کا شوقین ہوتا ہے۔ یہ کہانی اس کی تربیت کا ایک حصہ بھی ہوتی ہے کہ وہ جینا سیکھتا ہے۔ اس کہانی نے کبھی ادب کی شکل اختیار کی۔ افسانہ بنا، ناول لکھےگئے، ڈرامہ تیار ہوا، فلم بنائی گئی۔ بنیاد وہی کہانی تھی اور کہانی سننے کا شوق۔۔۔ ہمت۔۔۔ جدوجہد، ایثارو احسان اور دنیاوی اور سماوی آفات کے سامنے سر نگوں نہ ہونے کی ہے